Asansol

عظیم شاعرمنورراناکی یاد میں

آسنسول اردو اکاڈمی کی تعزیتی نشست



آسنسول(شکیل انور) آسنسول میونسپل کارپوریشن ڈپٹی میئر و آسنسول اردو اکاڈمی کی سکریٹری سید وسیم الحق نے آج کارپوریشن کے الوچناہال میں بین الاقوامی شاعر منوررانا کی یاد میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیاجس کی صدارت اکاڈمی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر مشکور معینی نے کی اور نظامت کے فرائض مشہورصحافی ماسٹر امتیاز احمد انصاری نے بحسن و خوبی انجام دئے۔
. اس موقع پر تعزیت پیش کرنےوالوں میں ڈپٹی میئر سید وسیم الحق،ڈاکٙرمشکور معینی،ڈاکٹر فاروق اعظم،ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا،کونسلر وارڈ نمبر24 فنصبی عالیہ،کونسلر وارڈ نمبر98 و مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جنرل کونسل کی نو منتخب ممبر کہکشاں ریاض ,مغربی اردو اکیڈمی کے گورننگ باڈی کے نو منتخب ممبرشکیل انور،شاعرو ناظم مشاعرہ خالق ادیب، شاعر خورشید ادیب،شاعر وقیع منظر،نثرنگار انجینئر خورشید غنی، کارپوریشن کے اردو ٹرنسلیٹر منہاج الحسن شامل تھے۔نشست کاآغاز خالق ادیب نے اپنی خوبصورت مترنم آواز میں ایک نعتیہ کلام پیش کیا۔اس تعزیتی نشست میں تمام مقرروں نے شاعر منور رانا کی موت کو اردو ادب کے لئے ایک بڑا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔وہ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے ان کی شاعری آج کے معاشرے میں پھیلتی ہوئیں برائیوں پر روک لگانے کی تلقین کرتی ہے وہیں مسلم معاشرے میں گرتی ہوئ اسلامی قدروں کی طرف اشارہ کرتی ہوئ انکی اصلاح کرنے کی دعوت دیتی ہے۔مقرروں نے انکےمتعدد اشعار پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا منور رانا اپنی شاعری کے ذریعہ سماجی ناانصافیاں،غربت،ظلم و ستم کےخلاف بابنگدہل آواز بلند کرتے وہ چاہتے تھے کہ شاعری صرف حسن کلام نہ ہو بلکہ سماج اور معاشرہ کے بدلنے کا ہتھیار بنے۔سماج کاعکاس بھی بنے۔بعص مقرروں نے منوررانا کے مہاجرنامہ کے تمام اشعار ہر مہاجر کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔منوررانا نے “ماں” کو اپنی شاعری میں جس نئے لہجے میں لایا ہے وہ لہجہ ان کا اپنا اور منفرد ہے جسے کوئ دیگر شعراءاپنی شاعری کا خاص موضوع بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔حالانک علامہ اقبال نے بھی ماں پر اہک نظم کہی ہے مگر جو بات منور رانا میں ہے اس کا کیا کہنا۔ان کے اشعار میں ایک عجیب سا درد جو دل کو بھا لیتے ہیں بعض نے منور رانا کی شاعری کا حسن بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے بڑے شاعر غا لب کے اشعار اور ان کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے قول وفعل میں تضاد ہے مگر منور کی شاعری جو کہتی ہے اسے کرتی بھی ہے۔یہ چیز ایک شاعر کو عظیم مرتبہ پر لا کر کھڑا کردیتا ہے۔ماں کی عظمت کو انہوں نے نہایت ہی سادہ اور دل کو چھو لینے والے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ بعض مقرروں نے کہا کہ انکی شاعری جہاں اچھی تھی اس سے بہترین ان کی نثر نگاری تھی۔ بغیر نقشے کا مکان اور سفید جنگلی کبوتر کو پڑھیئے تو ہر جملہ پر واہ کہے بغیر کوئ نہیں رہ سکتا ہے مختصت خاکہ نویسی جس میں قصہگوئ کے لئے بھی گنجائشیں ہوں یہ فن منور ران کو بخوبی حاصل تھا۔ بےشک وہ ایک عظیم شاعر اور عظیم نثر نگارتھے وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیںگے ۔مقرروں نے انکے لئے دعائیں کیں اللہ انہءں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کے رشتہ داروں کو صبر جمیل سے نوازے۔اس کے بعد اس تعزیتی قرار داد سے اس تعزیتی نشست کے ملتوی ہونے کا اعلان ناظم نشست نے کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *