میت کو سڑک پرلاکر روڈ جام اور مظاہرہ, متاثرین کی حمایت میں معاوضہ اورنوکری کا مطالبہ
وزیر ملائےگھٹک اور پولس کی یقین دہانی کےبعدمظاہرہ اٹھایاگیا۔
۔آسنسول(شکیل انور)ریلپار نیا محلہ کے رہنے والے ایک نیک اورسنجیدہ شخص فصیح احمد کی سڑک حادثہ میں افسوسناک موت کی واردات کے خلاف آج سہپہر فیض عام پولس پھانڑی کے سامنے این آر آر روڈ بازار پر زبردست مظاہرہ پیش آیا۔مظاہرین مرنےوالے خاندان کے لئے معاوضہ اور ایک نوکری کامطالبہ کررہےتھے۔گھنٹوں جاری روڈ جام سے آج سہپہر سے لےکر افطاری کےوقت تک بازار اور گاڑیوں کی آمدورفت مکمل ٹھپ رہی ۔پولس کی یقین دہانی کےبعد یہ مظاہرہ اٹھایاگیآ۔اس کے بعد بعد نماز عشاء ریاستی وزیر ملائے گھٹک نےاس افسوسناک واردات پر بات چیت کے لئے نیامحلہ کے چند افراد کو اپنے آفس میں طلب کیا۔ریاستی وزیر ملائےگھٹک سے گفتگو کے دوران بیت الصلواة مسجد کے سکریٹری سہیل احمد خان,وارڈ نمبر24 کے ترنمول کانگریس کی کونسلر فنصبی عالیہ،فریدہ خاتون،محمد ذاہد،تبریزخان،شہزاد خان بنگالی اور دیگر افراد موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق ریاستی وزیر ملائے گھٹک نے اس واردات میں فصیح احمد کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خاندان کے تیئں اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ ان سےجو بھی بن سکے گا وہ ضرور کریں گے اور مزید یہ بھی یقین دلایا کہ وہ دو تین روز کے درمیان وہ نیامحلہ آئیں گے اور متاثر خاندان سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نےاس دوران پولس افسر سے بھی فون ہر رابطہ کر کے اس سڑک حادثہ میں ایک شخص کی موت کی واردات پر جلد از جلد قانونی کارروائ کی ہدایت بھی دی۔
. واضح رہے کہ سنیچر کے دن آسنسول نارتھ پولس تھانے کے تحت واقع محکمہ محنت کے پاس سے روز مرہ کی طرح فصیح احمد گروسری اشیاء کی سپلائ کے لئے ٹی وی ایس کے ذریعے گزر رہے تھے کہ اچانک دوسری سمت سے ایک انتہائ تیز دفتار مو ٹر سائکل ان کی گاڑی سے ٹکراجاتی ہے جسمیں فصیح احمد بری طرح زخمی ہوکر سڑک پر گر پڑے اورموٹر سائکل جسے دو کم عمر کے لڑکے چلارہےتھے اس حادثہ کے بعد اپنی موٹر سائکل چھوڑ کر فرار ہوگئے۔مقامی لوگ فصیح احمد کو بے ہوشی کے عالم میں پہلے مقامی ایچ ایل جی اسپتال میں بھرتی کرایامگر ناک اور خون سے متواتر خون جاری رہنے کے سبب ان کی حالت نازک ہوتی چلی گئ۔اس کے بعد جب خون میں لت پت فصیح احمد کی شناخت ہوئ تو محلے کے چند ہمدرد نوجوان اسپتال پہنچے۔اور انہیں ڈاکٹروں کے مشورے کے بعد درگاپور کے ایک غیرسرکاری اسپتال میں داخلہ کرایا۔اس سے قبل درگاپور کے دو مشہور اسپتال مریض کی شدید نازک حالت کے بنا پر داخلہ لینے سے انکار بھی کیاتھا۔کسی طرح نوجوانوں نے انہیں ایک اسپتال میں داخلہ کرایا۔دیررات ڈاکٹر کی ہدایت پر نو یونٹ خون کا بھی انتظام کر کے اسپتال میں جمع کرایاگیا۔چند گھنٹوں میں بڑی مقدار میں خون کا بندوبست کرنا ایک مشکل کام تھا مگر ڈاکٹر کی ہدایت پر چند باشعور اور انسانی ہمدردی رکھنے والے چند نوجوانوں نے مطلوبہ خون کاجوبندوبست کیا وہ ایک مثال بن گئ ۔مطلوبہ خون کے بندوبست کرانےمیں مسجد بیت الصلواة کے سکریٹری سہیل احمد خان،راکی ، محمد بلال اور دیگر نوجوانوں کی یہ انتھک محنت قابل ستائش رہی ہے۔مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھابالاآخر دیر رات ہی زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے فصیح احمد اس دنیا سے کوچ کر گئے اور اپنےپیچھے اہلیہ، دو بیٹیاں. اور ایک بیٹا چھوڑ گئے۔اس حادثہ کا سب سےغم انگیز پہلو یہ ہے کہ فصیح احمد کی ایک ایسی چھوٹی سی بچی ہے جو مکمل طور سے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے معذور ہے۔اس معذور بچی کی حالت دیکھ کر ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو بھر جاتے ہیں۔فصیح احمد اکیلا فرد تھا جس کے ذریعے اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ فصیح احمد کی پدری شفقت اپنی اس معذور بچی کے ساتھ بے مثال تھی۔ہر روز جب وہ اپنے شام کو روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوکر گھر واپس آتے تھے تو انکی یہ معذور بچی انکے منتظر میں دروازے کی طرف نظریں جمائ رہتی تھی۔اور فصیح احمداسے گود میں اٹھاتے اور محلے میں کچھ دیر ادھر ادھر گھماکر اسے گھر لے جاتے تھے۔یہ عادت انکی روز کی بنی ہوئ تھی۔آج جب ایک روز اپنے والد کو دیکھ نہیں پائ تو مظاہرے کے دوران پھوٹ پھوٹ کر روتی نظر ارہی تھی اور۔پھٹی پھٹی انکھوں سے ہر شخص میں اپنے پیارے باپ کے چہرہ کو تلاش کررہی تھی۔مگر اس معصوم بچی کو کیا پتہ کہ اس سے پیار کرنے والا باپ اب اس دنیا میں نہیں رہے
اتوار کی رات بعد نماز تراویح فصیح احمد کی میت کو ان کی رہائشگاہ نیامحلہ سے ان کی آخری منزل بابو تالاب قبرستان کی طرف لے جایا گیا۔جہاں دعائے مغفرت کے بعد انکی تدفین عمل میں آئ۔دعائے مغفرت میں سینکڑوں سے زائد افراد شریک تھے۔نماز جنازہ مسجد بیت الصلواة کے خطیب وامام مولانا نیاز احمد ندوی نے پڑھائ۔
.
.