Asansol

ریل پار کےپرانے ریلوے پل کو بندکرنے کے فیصلے کے خلاف عوام نے کی مخالفت۔



آسنسول: آسنسول کے لوکو مسجد کے پاس واقع انڈربریج جسے اس وقت کے انگریز حکمرانوں نے تعمیر کرایا تھا۔یہ پل اپنی ساخت کے سبب اس قدرخوفناک صورت حال میں پہنچ چکا تھا کہ لوگ جببھی اس کے اندر سے گزرتے تھے باہر نکل کر راحت تو ضرور محسوس کرتے مگر ساتھ ساتھ اپنے دلوں ریلوے انتظامیہ کے تئیں اپنی بیزاری کا اظہار بھی کرتے تھے۔اور یہ بیزاری بھی  اس لئے کہ یہ پل نہایت ہی تنگ تھاجہاں سے دو سواریوں کی گزر مشکل تھی ہمیشہ اندھیرے میں ڈوبا اندر کا خوفناک منظر۔اس کے علاوہ اس کے درودیوار اور سطح زمیں کے نیچے سے ابلتے اور گرتے گندا پانی کا ہمہ وقت بہاو سےہر گزرنے والا  کے لبوں پر ریلوے انتظامیہ کی تئیں بیزاری کا پایا جانا تو لازم ہی تھا۔اس تنگ و تاریک پل کی صورت حال بدلنے کے لئے ریل پار کے سماجی اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سےتحریکات چلیں اور میمورنڈم مقامی ریلوے انتظامیہ کو دئے گئے۔ جناب ایس ایم جلال اپنے دور میں اس پل کی صورتحال کو بدلنے کے لئے احتجاجا لوکو پل کے سامنے دھرنے پربھی بیٹھے۔مقامی ریلوے انتظامیہ افسران پر انہوں نے دباو بھی بنایا.غرض یہ ہے کہ اس کے لئے ہر دور میں ریل پار کے عوام کی جانب سے جدو جہد جاری رہی ہے کہ کسی طرح اس خوفناک پل سے لوگوں نجات مل جائے۔ مگر کوئ بروقت شنوائ نہیں ہوسکی ۔اسی درمیاں کانگریس کے اس وقت کے ایم ایل اے پربودھ لاہا کے دور میں مرکزی ریلوے وزارت کی طرف سے اس تنگ نما پل کے پاس ایک اوور ریلوے بریج کی تعمیر کی گئ۔مگر اس بریج کی سیڑھیاں اتنی تھیں کہ عمردراز افراد کا اس پر چڑھ کر دوسری جانب اترنا ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔ اس بریج کے قیام سے بھی ریل پار کے لوگوں  کو زرا بھی راحت نہیں ملی۔ مغربی بنگال کا اقتدار جب ممتابنرجی کے ہاتھوں میں آیا تو یہ امید لوگوں کے دلوں جگنے لگی کہ اب اس کی تقدیر سنورنے کے وقت آگیا ہے۔یہاں کے سرکردہ ترنمول کانگریس کے لیڈر مولاِے گھٹک جو اس ریل پار کی سماجی سیاسی اور معاشی صورت حال سے مکمل طور پر واقف کار تھے۔اپنے ہر انتخابی ایجنڈے میں انہوں نے اس تنگ و تاریک نما پل کو بہتر بنانے کی بات کو شامل رکھا اور اس کے لئے انہوں نے ذاتی طور پراس اہم ایشو کووزیر اعلی ممتا  بنرجی کے سامنے رکھتے رہے۔بالاخر اس وقت ممتا بنرجی شاید مرکزی ریلوے وزیر تھیں تو انہوں نے ہے باضابطہ ریلوے بورڈ کو ہدایت دی کہ اس جگہ ایک ایسا کشادہ پل بنایا جائے جس سے یہاں کے لوگوں کو آنے جانے میں سہولت حاصل ہو۔اس کے بعد کئ سیاسی انقلاب مرکز اور ریاست میں دیکھنے کو ملے۔اور جب ممتابنرجی نے ایک نئ سیاسی پارٹی ترنمول کانگریس کو لے کر بنگال ا کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لی تو حیرت انگیز طور پر پورے مغربی بنگال میں ہر طرف ترقیاتی کاموں کی بارش ہونے لگی ۔ پنچایتی علاقے سے لے کر شہری علاقوں کی تصویر ہی بالکل بدل گئ۔کسی نے ٹھیک ہی کہا جہاں چاہ وہاں راہ۔انہیں خوشگوار تبدیلیوں کے دوران ریل پار میں دو نئے برج کی تعمیرات ہوئیں۔جو دیکھنے میں خوبصورت اور تعمیر بھی شاندار۔ کہ آج ہر شخص قریشی محلہ کے نئے تعمیر شدہ پل سے گزرنے پرحکومت وقت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور دوسرا پل جو قدیمی تنگ اور تاریک پل کے بدل کے طور پر تعمیر ہوئی ہے وہ دیکھنے میں بلا شک و شبہ خوبصورت اور اس کی کشادگی بھی ماشاءاللہ کہ بیک وقت دو بڑی گاڑیوں کی آمدورفت با آسانی ہوسکتی ہے۔مگر اس کی تعمیر میں ایک ایسی کمی دیکھی جارہی جس کے سبب  آنے جانے والے ہر شخص کو خواہ وہ پیدل ہو یا کسی سواری پر سوار ہو انہیں ناپاک ہو جانےاور انکے لباس کے گندا ہوجانے کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔ اسی لئےاس نئے کشادہ پل کی تعمیر سے لوگ زیادہ خوش بھی نہیں ہیں۔
    دوسری طرف ریلوے انتظامیہ اب اس پرانے تنگ اور بوسیدہ خستہ حال انڈر بریج کو مکمل طور سے بند کر دینے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ حالانکہ یہ بوسیدہ خستہ حال تنگ و تارک بریج ہے مگر پیدل آنے جانے والے لوگ ، وہ طالب علم جو پیدل ہی اسکولجاتے ہیں اور پھیری کرنےوالے ہاکرس اپنے ٹھیلوں کے ساتھ اسی پل سے گزرتے ہیں اس لئے کہ بغل میں بننے والا بریج دیکھنے میں تو چوڑا ضرور ہے مگر اس بریج کے درمیان میں ہر وقت پاوں کے گھٹنوں کے برابر گندا پانی کا جماو برقرار رہتا ہے۔آخر یہ پانی کہاں سے آرہا ہے اوراس کی نکاسی کس طرح ہو اس جانب مقامی ریلوے انتظامیہ بالکل خاموش ہے گرچہ مقامی کونسلر فنصبی عالیہ کی جانب سے متعد مرتبہ اس جانب ریلوے انتظامیہ کی توجہ مبذول کرائ گئ ہیں۔مگر ریلوے نے کوئ ٹھوس قدم اس کے حل کے لئے نہیں اٹھایا۔لہذا جب ریلوے کی طرف سے اس پل کو بند کرنے کے لئے عملہ آِئے تو یہاں کے لوگوں نے پرزور اس کا احتجاج کیا اور کہا کہ جب تک اس نئے تعمیرشدہ پل کی حالت کو درست یعنی اس کے اندر ہروقت پانی کے جماو کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کیا جاتاہے تب تک اس پل کو بند کرنے نہیں دیںگے۔لوگوں کا مطالبہ بالکل جائز اور مناسب ہے۔
.  ترنمول کانگریس سے منسلک سماجی کارکن شہنواز خان عرف راکی نے بتایا کہ یہ انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا پل ہے۔اس کی دیکھ ریکھ نہیں ہونے کے سبب گرچہ یہ پل خستہ حال ہے تاہم آج بھی پیدل چلنے والے لوگوں کے لئے یہ آسان راستہ اس لئے ہے کہ  یہ پل سیدھا ہے۔جبکہ نوتعمیرشدہ پل کےایک طرف کا راستہ ڈھلان ہے اور دوسری طرف ہما لیہ پہاڑ کی طرح اونچاہے اور درمیان میں دو دو فٹ گندا پانی کا جماو۔راکی نے بتایا کہ اس نئےپل کا یہ المیہ ہے۔اسی لئے لوگ اسی تاریک وتنگ پل سے پیدل گزرنے پر مجبور ہیں۔احتجاج کرتے ہوے موجودہ لوگوں نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ نئے پل کی روزانہ دیک ریکھ اور صفائ کی جائے اور اس پرانے پل کو ہرگز بند ہونے نہیں دیا جائےگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Exit mobile version