Asansol

ہندو مسلم بھائ چارگی کا اعلی نمونہ۔



ایک غریب ہندو فرد کی انتم سنسکار میں “رفاہ عام” مسلم ادارہ کےمسلم نوجوان پیش پیش رہے۔


آسنسول(شکیل انور)آسنسول کوبھائ چارگی کا شہرکہاجاتا ہے یہاں ہر مذہب کے لوگ رواداری کے ساتھ آپس میں بھائ چارگی کے ساتھ رہتے ہیں آج بھائ چارگی کیا جو نمونہ منظر عام پر آیا ہے وہ نمونہ اس دیش میں جو ہندو مسلم کے درمیان نفاق اور نفرت کی فضا قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کے سامنے پیش کرنے کے لائق ہے تاکہ وہ دیکھیں کہ مغربی بنگال کا ایک شہرآسنسول جسے ایک منی بھارت بھی کہا جاتا ہے وہاں کس طرح ہندو مسلمان ایک ہی محلے میں رہتے ہیں اور ہر غم وخوشی میں ایک دوسرے کے لئے کھڑے رہتے ہیں۔
آخر آج ایسا کیا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی سی خبر کی تمہید اتنی بڑی ہو گئ ہے۔آپ کو بتائیں کہ آسنسول کے وارڈ نمبر25 کا علاقہ اوکےروڈ ایک مسلم اکثریت محلہ ہے یہاں ہندو اور مسلم مذاہب کے ماننے والوں کی رہائش گاہ ملی جلی ہے۔اگر دس گھر مسموں کا ہے تو چار پانچ گھر ہندوں کا بھی ہے۔دونوں فرقے کے لوگ مگر ایک دوسروں سے گھل مل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں ایک جگہ آکر جمع ہو جاتے ہیں۔اسی محلے میں آج ایک غریب ضعیف شخص اوما شنکر گپتا کی آج موت ہو گئ۔انکے بیٹے اشوک گپتا کی معاشی حالت اس قدر غیر ہے کہ وہ اپنے والد کی آخری رسومات کا بیڑہ بھی نہ اٹھا پاتا کہ اسی دوران جب مسلم نوجوانوں کی اس غریب شخص فرد اوما شنکر کی موت کی خبر جب ملی تو وہاں مسلم علاقے میں قائم ایک سماجی ادارہ” رفاہ عام” کے نوجوان سامنے آکر مرنے والے کے اہل خاندان کو تسلی دیتے ہوئے اس کے انتم سنکار میں لگنے والی ضروری اشیاء کا بندوبست کر دیا۔جب اس وارڈ کے کانگریس کونسلر ایس ایم مصطفے کو اس واقعے کا پتہ چلا تو فورا گپتا جی کے گھر پہنچ گئے۔کونسلر موصوف بھی مدد کے لئے آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ ان کو پتہ چلا کہ ان سے قبل رفاہ عام والے پہنچ کر میت کی انتم سنسکار میں لگنے والی ضروری اشیاءوں کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔انتم سنسکار کے لئے ہندو مذاہب میں کیا رسوم ہوتی ہیں ان سے لاعلمی کے سبب کانگریس کے اس کونسلر نے پاس کے وارڈ کےبی جے پی کونسلر گوربھ گپتا سے رابطہ قائم کیا۔گوربھ گپتا بھی خبر پاتے وہاں فورا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پہنچ گئے اور جب یہ دیکھا کہ وہاں کے مسلم نوجوانوں نے انکے انتم سنسکار میں لگنےوال اشیاء کا بندوبست کردیا تو بے حد ممنون ہوگئے اور اس کے بعد لاش کو تیار کراکے اسے شمشان گھاٹ کی طرف روانہ ہو ئے۔ مرنے والےاس غریب فرد کے آخری سفر میں ہندو او مسلم فرقے کے لوگ بھی شامل اس وقت تک رہے جب تک کہ ان کا آخری سنسکار کی رسومات مکمل نہیں ہوئ۔انتم سنسکار کے بعد شمشان گھاٹ کی فیس ادا کرنے جب مسلم افراد سامنے آئے تو پتہ چلا کہ نارتھ چیمبر آف کامرس کے صدر مندیپ سنگھ لالی وہاں پہنچ کر پہلے ہی مطلوبہ فیس مبلغ 1100 روپے ادا کر چکے۔ مندیپ سنگھ لالی نے بتایا کہ جب انہیں اس واقعہ کا پتہ چلا تو فورا شمشان گھاٹ میں آکر کسی کو بتائے بغیر انہوں نے یہ فیس ادا کردی۔چیمبر اور بی جے پی کے کونسلر نے مسلم نوجوانوں کی اس کارکردگی کی بے حد تعریف کی اور اعتراف کیا کہ بے شک فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائ چارگی آج کے ماحول کے لئے ایک اہم اور ضروری ہے تاکہ ماحول میں امن و امان قائم ہمیشہ رہے اور دیگر شہروں کے لئے اس علاقہ کا ماحول ایک نظیر بن جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Exit mobile version